سی پیک ویبینار: سی پیک کے حوالے سے من گھڑت خبروں کا مقابلہ کرنے کے لیے بہتر حکمت عملیاں وضع کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ؛ صدر شی چن پنگ کے وزیراعظم پاکستان سے حالیہ ٹیلی فونک رابطے کو تزویراتی شراکت داری کا اہم مظہر قرار دیا گیا۔
Source : PCI Date : 27-10-2021
اسلام آباد،27 اکتوبر 2021:پاکستان چائینہ انسٹیٹیوٹ(پی سی آئی) نے اپنی فلیگ شپ ایونٹ سیریز "شاہراہِ ریشم کے دیرینہ دوست" کے تحت سی پیک:مفروضے اور حقائق کے موضوع پر اپنی نوعیت کا پہلا ویبینار کا انعقادکیا۔اس ویبینار میں 60 سے زائد شرکاء نے آن لائن شرکت کی اور اس میں چھ اہم مقررین جن میں ایم این اے، چیئرمین، پارلیمانی کمیٹی برائے سی پیک شیر علی ارباب، سینیٹ کی دفاعی کمیٹی اور پاک چائینہ انسٹیٹیوٹ کے چیئرمین سینیٹر مشاہد حسین سید ، وزارت ِ خارجہ کی سابق سیکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ، لمز یونیورسٹی کے پروفیسرڈاکٹر جواد سید، گلوبل ولیج اسپیس کی منیجنگ ایڈیٹر نجمہ منہاس اور اہم کارپوریٹ لیڈرسمیر چشتی شامل تھے۔ اس ڈائلاگ کی نظامت کے فرائض پاک چائینہ انسٹیٹیوٹ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر مصطفیٰ حیدر سید نے ادا کیے۔
اس کانفرنس میں سی پیک کے خلاف من گھڑت خبروں پر مبنی مہمات کے ذریعے پیدا کی جانے والی غلط فہمیوں کو ختم کرنے کے لیے ایک جامع حکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت پر روشنی ڈالی گئی ۔ مزید برآں، اس میں ان مواقعوں اور آزمائشوں پر روشنی ڈالی کی گئی جن کا سی پیک کو اس وقت سامنا ہے اور ان آزمائشوں سے نمٹنے اور مواقعوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے سفارشات بھی دی گئیں۔
اس ویبینار میں پارلیمانی کمیٹی برائے سی پیک کے چیئرمین شیر علی ارباب نے اپنی کلیدی تقریر میں کہا کہ سی پیک پر پارلیمانی کمیٹی نے تین نکتوں پر خاص توجہ مرکوز کی ہے جو اس سے متعلق امور کو آگے بڑھانے میں معاون ثابت ہوئے ہیں یعنی یہ پارٹی لائن سے ماورا ہے، کمیٹی کی کارروائی ذمہ دارانہ پیغام کی رسانی کے لیے کیمرے کے روبرو ہوتی ہے اور کمیٹی کا چیئرمین اس کے ترجمان کے طور پر کام کرتا ہے۔ انہوں نے عوامی رابطوں کے ذریعے سی پیک پر مثبت رائے عامہ کی تشکیل میں پارلیمنٹ کے کردار کو اجاگر کیا۔ سی پیک منصوبوں کی پیش رفت پر تبصرہ کرتے ہوئےانہوں نے سی پیک کے پہلے مرحلے پر کام کی تعریف کی جس نے بنیادی ڈھانچے کے خلا کو دور کیا اور توانائی کی کمی کو ماضی کی علامت بنا دیا ہے۔ انہوں نے سی پیک کے دوسرے مرحلے کو صنعتی بحالی کے لیے ایک نیک شگون قرار دیا اور سی پیک میں افغانستان، ایران اور ترکی کو شامل کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
پاکستان کی سابق سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ نے 2019 ءمیں وزیر اعظم عمران خان کے دورہ چین کے دوران صدر شی چن پنگ کے تاثرات کا حوالہ دیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ " بین الاقوامی اور علاقائی صورتحال چاہے کسی بھی جانب رخ موڑے مگر چین اور پاکستان کی دوستی ہمیشہ اٹوٹ اور چٹان کی طرح مضبوط رہے گی" انہوں نے ان تاثرات کو مشترکہ جذبات کا حامل قرار دیا کیونکہ پاکستانی عوام بھی چین کے لیے یہی جذبات رکھتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مستقل مزاجی کے ساتھ بین الاقوامی سیاست میں تبدیلیوں سے متاثر نہ ہونا پاک چین تعلقات کی نمایاں خصوصیت ہے۔علاوہ ازیں انہوں نے کہا کہ سی پیک کی کامیابی کے لیےہمیں اس اہم منصوبے سے فائدہ اٹھانے والوں بشمول افغانستان، ایران، وسطی ایشیائی جمہوریہ تک اس کے دائرہ کار کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے علاقائی روابط کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے امریکہ کے ساتھ با مقصد گفت و شنیدبشمول سی پیک سے متعلق امور کو آگے بڑھانے کی ضروت پر زور دیا۔
اس ویبینار میں لمز یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر جواد سید نے سی پیک پر رائے عامہ کو مستحکم کرنے میں یونیورسٹیوں کے کردار پر روشنی ڈالی اورسی پیک پر بین الضابطہ تحقیق پر زور دیا۔ انہوں نے سی پیک منصوبے کی کامیابی کے لیے منظم اور جامع حکمت عملی وضع کرنے کی ضروت پر زور دیا۔
گلوبل ولیج اسپیس کی منیجنگ ایڈیٹر نجمہ منہاس نے نشاندہی کی کہ سی پیک پر موجودہ بیانیہ امریکہ اور بھارت سے آرہا ہے جس کا بنیادی مقصد سی پیک کے ذریعے پاکستان میں چینی اثر و رسوخ کے حوالے غلط خبریں پھیلانی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ "سی پیک پر پاکستان کے بیانیے کو دنیا بھر میں پیش کرنے کے لیے ہمیں تین جہتی حکمت عملی پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔" سب سے پہلے سی پیک کے پہلے مرحلے کی کامیابیوں کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے جس نے پاکستان کی معیشت کی بحالی میں نہایت اہم کردار ادا کیا ہے۔ دوسری بات یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ چین پاکستان کا اسٹرٹیجک پارٹنرہے اورسی پیک پاک چین تعلقات کا صرف ایک پہلو ہے۔ انہوں نے مزیدکہا کہ چین کے ساتھ ہمارے تعلقات کی جڑیں تاریخ لحاظ سے بھی نہایت گہری ہیں۔ تیسرا ہمیں بہتر انٹر ڈپارٹمنٹل رابطہ کاری کے ذریعے سی پیک پر عوامی رائے کو مستحکم کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ سی پیک اتھارٹی درست سمت کی جانب ایک بہترین قدم ہے۔ انہوں نے سی پیک کے بلوچستان کو حاصل ہونے والے ثمرات پر بھی روشنی ڈالی۔
اس موقع پر ایشیاپاک انویسٹمنٹس کے چیئرمین سمیر چشتی نے کہا کہ شینزن سب سے کامیاب اسپیشل اکنامک زون (ایس ای زیڈ) ہے اور پاکستان سی پیک سپیشل اکنامک زونز میں اسی چینی ماڈل کے مطابق تجربات سےسیکھ کر بہتر نتائج حاصل کر سکتا ہے اس ضمن میں انہوں نے مشترکہ منصوبوں کے ذریعے سے چینی کمپنیوں کے ساتھ فعال طور پر شراکت داری کی ضرورت پر زور دیا ۔
پاکستان چائینہ انسٹیٹیوٹ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر مصطفیٰ حیدر سید نے سول سوسائٹی کی تنظیموں کی سرگرمیوں کو میڈیا اور تعلیمی اداروں کے ساتھ بہتر طور پر مربوط کرنے کی اہمیت پر روشنی ڈالی تاکہ پاک چین تعلقات اور سی پیک پر بہترین رائے عامہ ہموار ہو سکے۔
اس ویبینار میں سینیٹ کی دفاعی کمیٹی اور پاکستان چائینہ انسٹیٹیوٹ کے چیئرمین سینیٹر مشاہد حسین سید نےاپنے اختتامی کلمات میں کہا کہ پاک چین تعلقات منفرد، وقت آزما اور باہمی مفادات پر مبنی ہیں اور یہ کسی طور پر کسی ملک کے خلاف عزائم پر مبنی نہیں ۔ انہوں نے عوامی رابطے کو اس رشتے کا اہم حصہ قرار دیا جو حال ہی میں امریکی پیوسروے میں بھی عیاں ہوا ہے جس کے مطابق 83 فیصد پاکستانی چین کو دوست سمجھتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ سی پیک کے پہلے مرحلے نے نے انفراسٹرکچر کو بہتر کیا ہے اور توانائی کے بحران کو تقریباختم کیا ہےاور گوادر پورٹ اور تھر کول جیسے منصوبوں کو دوبارہ بحال کیا ہے جبکہ پہلے مرحلے کے منصوبوں کے نتیجے میں 75000 پاکستانیوں کو روزگار کے مواقع میسر آئے۔ مزید برآں، انہوں نے کہا کہ سی پیک کے اصل ثمرات خصوصی اقتصادی زونز کے ذریعے آنا باقی ہیں۔ انہوں نے وزیر اعظم پاکستان عمران کی چینی صدر شی چن پنگ کے ساتھ ہونے والی حالیہ ٹیلیفونک رابطے کو اہم پیش رفت قرار دیا اور اس کو اس اہم حقیقت کا مظہر قرار دیا کہ سی پیک پر پیش رفت موثر اور خوش اسلوبی سے جاری ہے۔ انہوں نے صدر شی چن پنگ کے بی آر آئی کےعالمی ترقیاتی اقدام کو عوام پر مبنی ترقی کے لیے مثبت پہل کاری قرار دیتے ہوئے شاندار الفاظ میں سراہا۔ انہوں نے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کے ساتھ مغربی ممالک کے کاپی کیٹ اپروچ پر روشنی ڈالی جس کی وجہ سے امریکہ نےبِلڈ بیک بیٹر ورلڈ(بی 3ڈبلیو) متعارف کرایاجبکہ یورپین یونین نے نے اسی طرح گلوبل گیٹ وے کا آغاز کیا ہے۔ انہوں نے امریکی سینیٹ کی طرف سے قائم کردہ 'کاؤنٹرنگ چائنیز انفلوئنس فنڈ' کی طرف بھی اشارہ کیا جس میں چین کے خلاف میڈیا اور تعلیمی اداروں میں غلط معلومات پھیلانے کے لیے 300 ملین ڈالر مختص کیے گئے ۔ انہوں نے یہ کہتے ہوئے اختتام کیا کہ سی پیک کے لیے بہتر میڈیا مینجمنٹ کی ضرورت ہے۔ انہوں نے نئی سرد جنگ کے تصور کو بھی سختی سے مسترد کیا۔
یہ ویبینار 45 منٹ کے سوال و جواب کے سیشن کے ساتھ 2 گھنٹے تک جاری رہا۔ طلباء، اسکالرز، میڈیا اور کارپوریٹ سیکٹر بشمول چینی کمپنیوں کے شرکاء نے ویبینار میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔