PCI logo

Pakistan-China Institute

Realizing the Future Collectively

میڈیا فورم میں سی پیک سے متعلق غلط معلومات اور من گھڑت خبروں کا تدارک کرنے کے عزم کا اظہار،سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے چین کی حمایت کو قابلِ تعریف قراردیا، مشاہد حسین کی جانب سے سرد جنگ یا چین مخالف کسی بھی پالیسی کے خلاف پاکستان کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کا عزم۔


Source : PCI Date : 02-06-2022   

Mushahid Hussain elected chairman of CPEC parliamentary committee

اسلام آباد (2 جون، 2022): ساتواں چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) میڈیا فورم اسلام آباد میں منعقد ہوا۔ اس فورم کا اہتمام پاکستان میں عوامی جمہوریہ چین کے سفارت خانے کے تعاون سے پاکستان چائنا انسٹیٹیوٹ (پی سی آئی) اور چائنا اکنامک نیٹ (سی ای این) نے مشترکہ طور پر کیا ۔ واضح رہے کہ سی پیک میڈیا فورم کو سالانہ طور پربالترتیب بیجنگ اور اسلام آباد میں منعقد کیا جاتا ہے۔ اس سال کے فورم کا تھیم "سی پیک کی تصویر کا اصل رخ دکھانے میں میڈیا تعاون کی ضرورت " تھا۔ اس فورم میں ' سی پیک فیز 2: مواقع اور چیلنجز'، 'پاکستان، گلوبل ڈویلپمنٹ انیشیٹو اور میڈیا کا کردار'، اور ' سی پیک پر شفاف رپورٹنگ' کے عنوانات سے منعقد ہونے والے سیشننز میں ماہرین نےتبادلہ خیال کیا۔ اس تقریب کے افتتاحی سیشن کی نظامت کے فرائض پاک چائنا انسٹیٹیوٹ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر مصطفیٰ حیدر سید نے ادا کیے۔ پاکستان کی قومی اسمبلی کے سپیکر راجہ پرویز اشرف اس تقریب کےمہمان خصوصی تھے۔واضح رہے کہ 2014 ءمیں سی پیک میڈیا فورم کے قیام کے بعد سے نہ صرف بین الاقوامی معلومات کے تبادلے اور خبروں میں تعاون کی راہ ہموار ہوئی ہے بلکہ دونوں ممالک کے عوام کو ایک دوسرے کو بہتر انداز میں جاننے اور سمجھنے کے مواقع بھی میسر آئے ہیں۔
اپنے ابتدائی کلمات میں سینیٹر مشاہد حسین سید نے کوویڈ-19 کے دوران پاکستان کو طبی اور اخلاقی مدد فراہم کرنے پر چین کا خصوصی شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اس حمایت کے سبب لاکھوں انسانوں کی جان بچانےکی راہ ہموار ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ چین نے 6 ہفتوں مارچ-اپریل 2020 کے لیے ایک ایئر کوریڈور قائم کیا جس سے پاکستان کی اندرون ملک وبائی مرض پر قابو پانے کی استعداد میں اضافہ ہوا۔ انہوں نے مزیدکہا کہ سی پیک کے ذریعے چین نے پاکستان کواعتماد کا ووٹ دیا ۔ سی پیک کے ثمرات پرروشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سی پیک نے پاکستانیوں کے لیے اب تک 75000 ملازمتیں پیدا کی ہیں اور سی پیک کے تحت توانائی کے منصوبوں نے 5000 میگاواٹ سے زائد بجلی فراہم کی ہے۔ سرد جنگ کی ذہنیت کو مسترد کرتے ہوئے انہوں نے کثیرالجہتی اور رابطہ کاری کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ پاک چین دوستی کے مخالفین نے سی پیک کے خلاف غلط معلومات اور جعلی خبروں کی مہم شروع کر رکھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور چین کے تعلقات ہر آزمائش پر پورا اترے ہیں اور منفرد اور مضبوط تعلقات کے طور پر ابھرے ہیں۔
پاکستان کی قومی اسمبلی کے سپیکر راجہ پرویز اشرف نے اپنی کلیدی تقریر میں کہا کہ سی پیک نے ملک کے کئی لوگوں کی تقدیر بدل دی ہے اور درحقیقت سی پیک کے ذریعے چین نے پاکستان کی تعمیر و ترقی میں ایک اچھا دوست ہونے کے ناطے اپنا بھرپورحصہ ڈالا ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ سی پیک پراجیکٹس کے تحت تعمیر و ترقی اور چینی اداروں کے کردار سے متعلق خبریں ذرائع ابلاغ کی زینت بنتی ہیں جو نہایت خوش آئند ہے۔ انہوں نے مزیدکہا کہ پیشہ ورانہ مہارت اور مستقل مزاجی کے ساتھ جس طرح چینی اداروں نے کووڈ-19 جیسی عالمی وبا سے قطع نظر پراجیکٹس پر کام جاری رکھا وہ قابلِ تعریف ہے کیونکہ دنیا کے تقریباً ہر منصوبے میں وبا کے سبب رکاوٹیں پیدا ہوئیں مگر سی پیک کے تیزی سے جاری سفر کو پاکستان اور چین کی حکومتوں کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی میڈیا نے بھی سراہا ۔ ان کا کہنا تھا کہ جوں جوں سی پیک کا سفر آگے بڑھ رہا ہے ذرائع ابلاغ کی ذمہ داری بھی بڑھ جائے گی کہ وہ سی پیک پر شفاف اور حقیقت پسندانہ رپورٹنگ کریں۔ علاوہ ازیں انہوں نے کہا کہ میڈیا نے سی پیک کے آغاز سے اس میگا پراجیکٹ پر حقائق کو عام کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے فورم کی میزبانی پر پاکستان چائنا انسٹیٹیوٹ اور چائنہ اکنامک نیٹ کی کا وشوںکو سراہتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے پروگراموں کے ذریعے سے دونوں ممالک کی سدا بہار دوستی کو مزید مضبوط کرنے کےبہترین مواقع میسر آئیں گے۔
اس تقریب کے دوران پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کا خصوصی ویڈیو پیغام پیش کیا گیا۔ جس میں انہوں نے کہا کہ پاک چین تعلقات درحقیقت ایک خاص رشتہ ہے جس کی عصری بین الاقوامی تعلقات میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ انہوں نے کہا کہ ذاتی طور پر ان کے لیے اس خاص رشتے پر بات کرنا اعزاز کی بات ہے کیونکہ ان کے دادا وزیر اعظم شہید ذوالفقار علی بھٹو اسی رشتے کے معمار ہیں اور انہوں نے 1963 میں پاکستان اور چین کے درمیان تاریخی سرحدی معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ وہ چیئرمین ماؤ سے ملاقات کرنے والے آخری عالمی رہنما بھی تھے۔ مزید برآں، انہوں نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی اس تعلق کو برقرار رکھنے اور اسے آگے بڑھانے کے لیے پرعزم ہے۔
پاکستان میں تعینات چین کی قائم مقام سفیر پینگ چنکسو نےاس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ رائے عامہ کو ہموار کرنے اور من گھڑت خبروں سے نمٹنے کے لیے باہمی تعاون کی ضرورت ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ کچھ مغربی ممالک سنکیانگ، تبت، ہانگ کانگ کے ضمن میں چین پر الزامات عائد کرتے ہیں اور سی پیک کے حوالے سے من گھڑت خبریں پھیلاتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں اپنی مضبوط دوستی کا فائدہ اٹھانا چاہیے، مثبت خبروں کی تشہیر میں اضافہ کرنا چاہیے، اپنے نقطہ نظر سے بیانیے کی تعمیر کے لیے پہل کرنی چاہیے اور منفی عوامی رائے کا مشترکہ طور پر جواب دینا چاہیے۔ مزید برآں، انہوں نے سی پیک کو ایک قیمتی اثاثہ قرار دیا جس نے میڈیا کے تعاون کے لیے کثیر زیادہ مواقع پیدا کیے ہیں۔ آخر میں انہوں نے امید ظاہر کی کہ چین اور پاکستان کا میڈیا ایک پل کے طور پر بہتر کردار ادا کرے گا اورچین پاکستان تعاون کے حوالے سےدرست خبریں فراہم کرےگا اور آئرن برادارزکے درمیان سدا بہاردوستی کو مزید مستحکم کرے گا۔
چین میں تعینات پاکستان کے سفیر معین الحق اس موقع پر کہا کہ سی پیک میڈیا فورم جیسے ایونٹ سی پیک سے متعلق غلط خبروں سے مقابلہ کرنےکے لیے نہایت ضروری ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ چینی حکومت کے تعاون سے سفارت خانہ پاکستان نے پاکستان فلم فیسٹیول سمیت کئی تقریبات کا انعقاد کیا ہے۔ جن میں پاک چین پپٹ شو، فوٹوگرافی اور پینٹنگ کی نمائش؛ پاکستان چائنا ویمن فورم؛ پہلا پاک چین ادبی فورم اور بیجنگ بین الاقوامی کتاب میلے میں پاکستان کی شرکت جیسے اقدامات شامل ہیں ۔ ان تقریبات نے دونوں ممالک کے درمیان دوستانہ مراسم کو مزید تقویت بخشی ہے اور نوجوان نسل تک دوطرفہ دوستی کی بہترین روایات کو منتقل کرنے میں مدد فراہم کی ہے۔
پاکستان چائنا انسٹیٹیوٹ (پی سی آئی)کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹرمصطفیٰ حیدر سید نے اس موقع پرکہا کہ پی سی آئی نے چائنا اکنامک نیٹ کے تعاون سے سی پیک میڈیا فورم کو ایک آن لائن ایونٹ کے طور پر آغازکیا اور سالانہ کی بنیاد پر بالترتیب اسلام آباد اور بیجنگ میں منعقد کیا جاتا ہے۔ گزشتہ سال پاکستان چائنا انسٹیٹیوٹ نے ریپڈ رسپانس انفارمیشن نیٹ ورک (آر آر آئی این) کا آغاز کیا جو سی پیک پر جعلی خبروں کی نشاندہی کرتا ہے اور ان کا حقائق کے ساتھ مقابلہ کرکے رد کیا جاتا ہے۔ مزید برآں، پی سی آئی نے "سی پیک : فیکٹس بمقابلہ فکشن" کے عنوان سے ایک مونوگراف بھی لانچ کیا ہے۔ ایگزیکٹیو ڈائریکٹر نے شرکاء کو آگاہ کیا کہ پاکستان چائنا انسٹیٹیوٹ اردو میں "دی گورننس آف چائنا"، جلد دوئم اور جلد سوئم شائع کرے گا جو صدر شی جن پنگ کے تحریر کردہ تحاریر پر مشتمل ہیں۔
اکنامک ڈیلی کے نائب صدر ژاؤ زی زونگ اس موقع پر کہا کہ ایشیا کی ترقی چین اور پاکستان کے تعاون کے بغیر ناممکن ہے۔ 71 سال سے زیادہ عرصہ قبل سفارتی تعلقات کے قیام کے بعد سےدونوں ممالک نے ہمیشہ ایک دوسرے کی مدد کی ہے اور ایک دوسرے کے بنیادی مفادات اور مختلف ایشوز پر ایک دوسرے کی مضبوطی سے حمایت کی ہے۔ حالیہ برسوں میں، خاص طور پردونوں اطراف کی مشترکہ کوششوں کی بدولت چین پاکستان اقتصادی راہداری ( سی پیک) نے شاندار کامیابی اور نتائج حاصل کیے ہیں جس سے دونوں ملکوں کے عوام کو ثمرات حاصل ہوئے ہیں اور علاقائی خوشحالی کے ایک نئے سفر کا آغاز ہوا ہے۔ "سی پیک کی تصویر کا اصل رخ دکھانے میں میڈیا تعاون کی ضرورت "کے تھیم کے تحت انھوں نے تین تجاویز پیش کیں، یعنی سچائی کی تلاش کیونکہ یہ خبروں کا اصل مقصد ہے، ہم آہنگی کیونکہ چینی ثقافت میں متنوع ہم آہنگی کو خاص اہمیت حاصل ہے اور جدت کی تلاش جوخبروں کی خصوصیت نئے مواد اور نئی شکل سے ظاہر ہوتی ہے۔
آل چائنا جرنلسٹس ایسوسی ایشن کے ایگزیکٹو سیکرٹری تیان یوہونگ نے اس مو قع پر کہا کہ سی پیک ایک اقتصادی راہداری ہے جس میں باہمی فوائد اور وِن-وِن ثمرات ہیں۔ یہ ایک ثقافتی راہداری بھی ہے جس میں دوستی اور لوگوں کے درمیان تعلقات کا خاص توجہ مرکوز ہے۔سی پیک کے تحت انفراسٹرکچر نے ایک مربوط پل کا کردار اداکیا ہے جبکہ دونوں ممالک کے درمیان میڈیا تعاون نے "پیوپل ٹو پیوپل کنیکٹویٹی" کی راہ ہموار کی ہے۔ انہوں نے تجویز پیش کی کہ دونوں ممالک کے میڈیا کو درست خبروں کو اہمیت دینی چاہیےاور شفاف رائے عامہ کو ہموار کرناچاہیے۔ جنریشن ذی کے لیے بہتر مواد بنانے کے لیے نئی میڈیا ٹیکنالوجیز کو اپنانا چاہیے اور صحافیوں کی انجمنوں کے درمیان تعاون کو مضبوط بنانا چاہیے۔
آل پاکستان چائنیز انٹرپرائزز ایسوسی ایشن (اے پی سی ای اے) کے سی ای او یانگ جیانداؤ نے اس موقع پرکہا کہ پاکستان میں چینی سرمایہ کاری پاکستانی کمیونٹی کے لیے خوشحال اور خود کفیل ہونے کا ایک بہترین موقع ہے۔ پاکستان کے اندر ایک فلیگ شپ پروجیکٹ کے طور پر سی پیک نے 25 ارب ڈالر کی براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کیا ہے۔ سی پیک صرف سڑکوں کی تعمیر تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کا دائرہ کارتوانائی اور صنعتی شعبے میں صلاحیت بڑھانے تک پھیلا ہواہے۔ سی پیک کا دوسرا مرحلہ کل 27 پراجیکٹس پر مشتمل ہے جو پاکستان کے اندر سات مختلف شعبوں کو بہتر بنانے کے لیے وضع کیے گئے ہیں۔ ان شعبوں میں زراعت، صحت، تعلیم، پینے کے پانی کی فراہمی، غربت کا خاتمہ ، پیشہ ورانہ تربیت اور تعلیم شامل ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کے سی ای او حمید ہارون نے اس موقع پرکہا کہ انہیں 1980 کی دہائی کے اوائل میں میڈیا سے چین میں ایک وفد کی قیادت کرنے کا اعزاز حاصل ہے اور اس کے بعد کے چین کے دورے ان کے لئے ناقابل فراموش ہیں۔ تھری سیز کے نظریے یعنی راہداریوں، ثقافتوں اور کنیکٹیویٹی پر تبصرہ کرتے ہوئےانہوں نے کہا کہ سینیٹر مشاہد حسین سید نے حقیقی معنوں میں تھری سیز کے نظریہ کو عملی جامہ پہنایا اور یہ فورم کی اس اصل تصویر ہے۔ انہوں نے کہا کہ دو طرفہ عوامی تعلقات کو مستحکم کرنے کے لیے ثقافتی تعاون اور افہام و تفہیم کی ضرورت ہے جسے پاکستان اور چین کے درمیان منفرد مراسم کا بنیادی جزسمجھا جاتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ثقافتی ماہرین، علماء، مورخین اور فلسفے کے ذریعے ثقافتی تبادلے کی بنیادی شکل شاہراہ ریشم سے شروع ہوئی جو کہ 2000 سال پر محیط ایک پرانا تاریخی راستہ ہے یہ پاکستان کی تاریخ کے وہ حصے ہیں جن کو چینیوں کے اکاؤنٹس کے بغیر سمجھا نہیں جا سکتا۔ وہ زائرین جو ان ابتدائی ادوار میں چین سے پاکستان گئے تھے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ سی پیک کے بارے میں اچھی تفہیم کو فروغ دینے کی ضرورت ہے اور ہمیں مغربی طرز کے پروپیگنڈے کا شکار نہیں ہونا چاہئے جس میں اپنے مذہوم مقاصد کے حصول پر خاص توجہ مرکوز ہے بلکہ ہمیں ان کے بین الاقوامی ہتھکنڈوں کے نرغے میں نہیں آنا چاہیے ۔
چائنا اکنامک انفارمیشن سروس، شنہوا نیوز ایجنسی کے نائب صدر ڈائریکٹرلی یو نے اس موقع پر کہا کہ ہم سی پیک کی تازہ ترین معلومات کو عام کرنے، چین پاکستان تعاون کی درست خبریں پہنانے اور ایک سازگار رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے متنوع پلیٹ فارمز، چینلز کو بروئے کار لا رہے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ درست رائے عامہ ہموار ہموار کرنے کے ذریعے سے دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان تعلقات کو مضبوط کرنے کے لئے بھی کوشاں ہیں۔ چائنا میڈیا گروپ سے تعلق رکھنے والے وانگ کیانٹنگ نے اس موقع پر کہا کہ سی پیک منصوبے کے پاکستانی معاشرے کو ہونے والے فوائد صاف اورواضح ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب معیشت کو عام طور پر درآمدی افراط زر کے دباؤ کا سامنا ہےمیڈیا کو ضروری تنقید کو برقرار رکھتے ہوئے عوام کا اعتماد حاصل کرنا چاہیے اور مل کر مشکلات پر قابو پا کر باہمی اتفاق کو فروغ دے کر رائے عامہ کو ہموار کرناچاہیے۔ صحافی نجمہ منہاس نے جغرافیائی سیاست کو سی پیک سے الگ کرنے اوراس کے تحت عوام پر مبنی ترقی کے سفر پر خاص توجہ دینے کی ضرورت پر زور دیا۔
انسٹیٹیوٹ آف سٹریٹجک اسٹڈیز اسلام آباد کے ڈائریکٹر جنرل ایمبیسڈر اعزاز چوہدری نے اس موقع پر کہا کہ چین کا وژن مشترکہ تقدیر کی کمیونٹی کی تشکیل ہے جو کہ بنی نوع انسان کی بہتری کے لیے ایک وژنری قدم ہے کیونکہ یہ انسانیت کے درمیان تعلق ہے جو نہایت اہمیت رکھتا ہے۔ مزید برآں، انہوں نے کہا کہ ہمیں ڈیٹا پر مبنی رپورٹنگ کے ذریعے جھوٹے پروپیگنڈے کا مقابلہ کرنے اور اسے روکنے کی ضرورت ہے۔
تقاریر کے بعد چائنا اکنامک نیٹ کے نمائندے کیو کی جانب سے’’چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور:سٹوریز بہائنڈ‘‘ کے عنوان سے رقم کیے گئے کتاب کی رونمائی کی گئی۔
فورم کے اختتام پر پاکستان کے 4 اہم صحافیوں کو سی پیک کمیونیکیشن ایوارڈز سے بھی نوازا گیا۔ جن میں محمد آصف نور، طاہر علی، حافظ طاہر خلیل اور سید کمال حسین شاہ شامل تھے۔