PCI logo

Pakistan-China Institute

Realizing the Future Collectively

شاہراہِ ریشم کے دیرینہ دوست :کورونا وائرس کے خلاف جنگ سے متعلق و یبینار کا انعقاد ، پاک چین تعلقات اور ورلڈ آرڈر پر مرتب ہونے والے اثرات پر تبادلہ خیال ، آٹھ سیاسی جماعتوں کی جانب سے انسانیت کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لئے مشترکہ طور پرقومی اور عالمی سطح پر بھرپور ردعمل ظاہر کرنے کی اہمیت پر زور۔


Source : PCI Date : 04-04-2020   

Mushahid Hussain elected chairman of CPEC parliamentary committee

سینیٹ کی خصوصی کمیٹی برائے امور خارجہ اور پاکستان- چائینہ انسٹیٹیوٹ کےچیئرمین سینیٹر مشاہد حسین سید نے " کورونا وائرس کے خلاف جنگ" کے موضوع پر منعقدہ آل پارٹیز ویبینار کی میزبانی کی جس میں آٹھ مختلف سیاسی جماعتوں نے حصہ لیا۔ تفصیلات کے مطابق یہ آن لائن ویڈیو کانفرنس پاکستان میں کورونا وائرس کے وبا کے آغاز کے بعد منعقد ہونے والا اپنی نوعیت کا پہلا پروگرام تھا جس میں کورونا وائرس کا مقابلہ کرنے کے حوالے سے موثر لائمہ عمل کے حوالے سے متعلق امور پر تبادلہ خیال کیا گیا اورپاکستان چین تعلقات ، سی پیک اور ورلڈ آرڈر پر مرتب ہونے والے اثرات پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی۔

واضح رہے کہ دو گھنٹے تک جاری رہنے والی اس کانفرنس میں وزیر مملکت برائےپارلیمانی امور سینیٹر اعظم خان سواتی (پی ٹی آئی) ، ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سینیٹر سلیم مانڈوی والا (پی پی پی پی) ، سینیٹر عثمان کاکڑ (پی کے ایم اے پی) ، سینیٹر انور الحق کاکڑ (بی اے پی)،سینیٹرطلحہ محمود (جے یو آئی-ایف) ، سینیٹر ستارہ ایاز (اے این پی) اور سینیٹر مشتاق احمد (جے آئی پی) نے شرکت کی۔اس موقع پر ایگزیکٹو ڈائریکٹر پاکستان چائینہ انسٹیٹیوٹ مصطفی حیدر سید نے شرکاء کو کورونا وائرس کے سبب پیدا ہونے والی صورتحال میں پاکستان کی جانب سے چین کو جبکہ چین کی جانب سے پاکستان کو فراہم کی جانے والی طبی امداد کےحوالے سے تفصیلات پر مبنی پریزنٹیشن بھی دی۔ ان معروضی حقائق کے مطابق پاکستان نے یکم فروری 2020ء کو چین کو ایک خصوصی ٹرانسپورٹ طیارےکے ذریعے سےماسک اور طبی سازوسامان بھیجا چونکہ اس وقت چین میں اس طرح کے ماسکس کی بڑی قلت تھی۔ اسی طرح10 فروری 2020 ءکو سینیٹر مشاہد حسین نے پاکستان کی سینیٹ میں ایک قرار داد پیش کی اور چین کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے اس قرارداد کو متفقہ طور پر منظور کی گئی اور کچھ دن بعد اسی طرح کی قرارداد پاکستان کی قومی اسمبلی نے بھی پاس کی اور پاکستانی پارلیمنٹ پہلی پارلیمنٹ تھی جس نے کورونا وائرس کےوبا میں چین کے ساتھ بھرپور طور پر یکجہتی کا اظہار کیا۔ نیزپاکستان ان چند ممالک میں سے ایک ہےجن نے چین سے اپنے شہریوں کو باہر نہیں نکالا اور چینی مختلف شہروں بشمول ووہان میں زیرِ تعلیم پاکستانی طلباء اور اپنےشہریوں کی دیکھ بھال کے حوالے سے چین پر مکمل اطمینان کے ذریعے سے چینی صلاحیتوں پر اعتماد کا اظہار کیا ۔جبکہ 16 اور17 مارچ کو صدر پاکستان عارف علوی چین کے ساتھ پاکستانی قوم کی جانب سےیکجہتی کے اظہار کے لئے خصوصی طور پر چین روانہ ہوئے اور اس اقدام کو چینی صدر شی جن پنگ اور پورے چینی عوام کی جانب سے شاندار الفاظ میں سراہا گیا۔

معروضی حقائق پر مبنی اس فیکٹ شیٹ میں 25 مارچ سے اب تک چین کی جانب سے پاکستان کو خصوصی پروازوں کے ذریعے سے دی جانے والے طبی سازو سامان کا بھی ذکر کیا گیا جس میں 20 لاکھ ماسکس ، 70000 طبی حفاظتی سامان ، 100000 ٹیسٹنگ کٹس ، 217 وینٹی لیٹرز کے علاوہ ایک خصوصی اسپتال بنانے کے لئے چین کی جانب سے پاکستان کو 4 ملین ڈالر کی ایمرجنسی میڈیکل گرانٹ بھی شامل ہے۔پاکستان چائینہ انسٹیٹیوٹ کے چیئرمین سینیٹر مشاہد حسین سید نے اس ویبینار میں اپنے افتتاحی کلمات میں کہا کہ کورونا وائرس کے بحران سے پاک چین دوستی اور یکجہتی کو تقویت ملی ہے کیونکہ دوسرے سابقہ آزمائشوں کی طرح چین ایک بار پھر پاکستان کے ساتھ مضبوطی سے چٹان کی طرح شانہ بشانہ کھڑا ہے۔ انہوں نے وبائی مرض کے سبب ورلڈ آرڈر پر پڑنے والےاثرات کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ایشیائی ممالک جن میں چین ، جنوبی کوریا اور سنگاپور شامل ہیں کی قیادت نےمغربی ممالک کے مقابلے میں بخوبی احسن طریقے سے طبی اور صحت کی دیکھ بھال کے نظام کو یقینی بنا کر بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے اور اس سلسلے میں چین نے قابلِ تعریف کردار ادا کیا ہےکیونکہ چینی ڈاکٹر ایشیائی ممالک بالخصوص پاکستان کے علاوہ اٹلی اور اسپین جیسے یورپی ممالک میں بھی کام کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ سینیٹر مشاہد حسین سیدنے گذشتہ روز وزیر اعظم کے اس اعلان کا خیرمقدم کیا کہ جس میں انہوں نے سی پیک کے منصوبوں کو ترجیحی بنیادوں پر دوبارہ آغاز کرنے کے ہدایات جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ سی پیک مسئلہ کشمیر کی طرح پاکستان کے لئے اہمیت کا حامل ہونے کے ساتھ قومی سلامتی کا مسئلہ ہے اور یہ میگا پراجیکٹ پاکستانی عوام کی ترقی اور خوشحالی کا ضامن ہے۔ .

اس ویبینار میں سینیٹر مشاہد حسین نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ حکومت بحران سے نمٹنے کے لئے نیشنل ہیلتھ ایمرجنسی کا اعلان کرے تاکہ تمام وسائل اور اداروں کو اس ایک نکاتی ایجنڈے کے تحت بروئے کار لایا جاسکے۔

اس موقع پر سینیٹر اعظم سواتی نے موجودہ صورتحال میں دو بڑے چیلنجوں یعنی غربت و افلاس اور کورونا وائرس کے بارے میں تبادلہ خیال کیااور کورونا وائرس کی روک تھام کو ہی بہترین علاج قرار دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ چین ہمیشہ سے مشکل گھڑی میں ہمارے ساتھ کھڑا رہاہے اور ہمارے پاس چین کا شکریہ ادا کرنے کے لئے الفاظ نہیں۔ سینیٹر اعظم سواتی کا کہنا تھا کہ ابھی تک صرف 17000 پاکستانیوں کا کورونا وائرس کا ٹیسٹ کیا گیا ہے جن میں سے تقریبا 2300 مثبت کیسز سامنے آئے ہیں۔

اس دوران سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ حکومت کورونا وائرس سے نبرد آزما ہونے کے لئے تیاری نہ ہونے کا حوالہ دے کرنہایت سست روی کا مظاہرہ کر رہی ہے اور انہوں نے حوالہ دیا کہ موثراقدامات کے تحت ازخود 2000 ٹیسٹنگ کٹس بروقت درآمد کیے گئے ہیں۔ انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ نجی شعبے سے کوئی بڑا کاروباری گروپ اس صورتحال میں آگے نہیں آیا ہے۔

سینیٹر ستارہ ایاز نے کورونا وائرس کے بارے میں زیادہ سے زیادہ شعور پیدا کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اس کی مختلف صوبوں نہایت فقدان ہے جو صورتحال کومزید خراب کرنے کا باعث بن رہی ہے اور انہوں نے ضرورت مندوں اور غریبوں کو غذائی سامان کی فراہمی کو یقینی بنانے کی ضرورت پر زور دیا اور کورونا وائرس کا مقابلہ کرنے کے لئے پاکستان کی حمایت پر چین کا شکریہ ادا کیا۔

اس موقع پرسینیٹر عثمان کاکڑ نے اپنے تاثرات کا آغاز کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں گلگت بلتستان میں اپنےفرائض منصبی کے دوران شہید ہونے والے ڈاکٹر اسامہ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کیا اور صوبہ بلوچستان پر خصوصی توجہ دینے کی اہمیت پر زور دیا کیونکہ وہاں 71 فیصدلوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ انہوں نے کورونا کی وبا سے نمٹنے میں وزیر اعلی سندھ کے کردار کو شاندار الفاظ میں سراہا۔ انہوں نے چین کی جانب سے کورونا کی وبا پر قابو پانے کی کامیابی کو خوش آئیند قرار دیتے ہوئے چین پر زور دیا کہ وہ خصوصی طور پر پاکستان کے کم ترقی یافتہ علاقوں بالخصوص بلوچستان کے مختلف علاقوں میں کورونا وائرس پر قابو پانے کے لئے خصوصی طور پر طبی امداد فراہم کرے۔ انہوں نے قیدیوں کی رہائی کے علاوہ مختلف صوبائی زبانوں میں آگاہی کے پیغامات کو عام کرنے کی ضرورت پر زور دیا تاکہ زیادہ سے زیادہ شعور و آگاہی پیدا ہو سکے۔

سینیٹر مشتاق احمد نے اس دوران کہا کہ عہدِ حاضر کی سب سے بڑی ضرورت قومی ایکشن پلان تیار کرنا ہے جس کا اجتماعی ، مربوط اور جامع ردعمل ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخواہ کے پورے صوبے میں صرف ایک ٹیسٹنگ لیب موجود ہے جس میں روزانہ صرف 700 ٹیسٹ کرنے کی گنجائش موجود ہے۔ انہوں نے این جی اوز اور سول سوسائٹی تنظیم کے مابین رابطہ نظام قائم کرنے کے لئے حکومت کے کردار کی ضرورت پر بھی زور دیا ۔ انہوں نے مزید کہاکہ جماعت اسلامی کی "الخدمت فاؤنڈیشن" نے اپنے ہسپتالوں اور کلینکس کے نیٹ ورکس کے ذریعے پہلے ہی تقریبا 500ملین روپےخرچ کیے ہیں۔ جس میں سندھ کے ضلع تھر کا واحد این جی او ہسپتال ہے۔ انہوں نے چین پر زور دیا کہ وہ زیادہ سے زیادہ طبی سامان کی فراہمی کے ذریعے سے پاکستان کی مدد کرے۔

سینیٹر طلحہ محمود نے اس موقع پر چین کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ چین پاکستانی شہریوں کی بخوبی احسن طریقے سےدیکھ بھال کر رہا ہے "پیوپل ٹو پیوپل کنیکٹویٹی" پاکستان اور چین کی آزمودہ دوستی کا مظہر ہے۔ انہوں نے مزیدکہا کہ آج 220 ملین پاکستانیوں کی نگاہیں چین پر مرکوز ہیں۔ اس موقع پرانہوں نے طلحہ محمود فاؤنڈیشن کے کردار کا بھی حوالہ دیا جو ہزارہ کے 10000 خاندانوں کو راشن مہیا کررہی ہے۔

سینیٹر انور الحق کاکڑ نے کہا کہ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ایران سے آنے والے زائرین اور تبلیغی جماعت کے افراد کی کلسٹرز کی شکل میں بروقت نشاند ہوئی جن کا پھر ٹیسٹ کیا جاسکتا ہے اور انہوں نے 31 دسمبر 2020 کے بعد پاکستان میں داخل ہونے والے 900000 افراد کی جانچ کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔

اس ویبنیار کے اختتام پر آٹھ سیاسی جماعتوں نے کووڈ-19کے خلاف بین الاقوامی مشترکہ تعاون سے متعلق مشترکہ کھلا خط مرتب کیا جس میں انہوں نے وبائی امراض کی روک تھام میں چین کے کردار کو سراہا اور عام لوگوں کو وبائی مرض سے بچاؤ کے لئے حفاظتی تدابیر پر مکمل طور پر عمل کرنے کی بھی تاکید کی اور اس وبا سے نمٹنے کے لئے سول سوسائٹی کی تنظیموں اور رضاکاروں کے کردار کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ جبکہ سیاسی جماعتوں نے تمام ممالک پر زور دیا کہ وہ لوگوں کی جان ، حفاظت اور صحت کو ہر چیز سے بالاتر رکھیں اور انہوں نے کورونا وائرس کے خلاف عالمی جنگ میں کامیابی کے حصول کے لئے رابطہ سازی کو برقرار رکھنے کی تاکید کی۔ سینیٹر اعظم سواتی نے کہا کہ وہ وزیر اعظم پاکستان کو سفارشات کے ساتھ ذاتی طور پر اس ویبنیار کی ایک رپورٹ ارسال کریں گے۔

اسی طرح آخر میں کھلے خط میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ہم کسی بھی ملک ، خطے یا نسلی گروہ اور ممالک کے تعاون کو مجروح کرنے اور کورونا وائرس پر قابو پانے کی کسی بھی کوشش کے خلاف ہر طرح کے امتیازی تبصرے اور طریقوں کے خلاف سختی سے کھڑے ہونگے۔ تمام سیاسی جماعتوں نے کسی بھی سیاست سے بالاتر ہوکر فعال کردارادا کرنے پر اتفاق کیا اور ضرورت کی اس گھڑی میں کورونا وائرس کے بارے میں بیداری کے ذریعہ سے انسانیت کی خدمت کرنے اور لوگوں کو خاص طور پر ضرورت مندوں کو طبی اور خوارک کی فراہمی کے لئے آگے بڑھنے کی اہمیت پر زور دیا۔